Tuesday, August 24, 2010

سیالکوٹ: قتل کے چشم دید گواہ



’سترہ برس کا لڑکاخاموشی سے مار برداشت کرتا رہا لیکن اس کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا‘
سیالکوٹ میں دو نوجوان بھائیوں کی بھرے مجمع میں ہلاکت کی فوٹیج تیار کرنے والے کیمرہ مین بلال خان سے میں نے پوچھا کہ کیا ہلاکت کی فلم بندی ان دونوں لڑکوں کی جان بچانےسے اہم تھی؟

جواب ملا کہ’میں کر بھی کیا سکتا تھا‘۔

ٹی وی نیوز ون کے کیمرہ مین بلال خان کوئی پون گھنٹہ تک اس ہلاکت کی فلم بندی کرتے رہے تھے۔ یہ ویڈیو فوٹیج ہلکے پھلکے سنسر کے ساتھ ٹی وی چینلوں پر نشر ہوئی اور اب یو ٹیوب پر بلا سنسر تمام تر المناکی لیے موجود ہے۔

بلال خان چھ برس سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ یہ بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ صحافی کی سوچ خبر سے آگے نہیں جاسکتی اور اسے مرتے ہوئے انسان کو بچانے سے زیادہ اس کی فوٹو بنانے کی فکر ہوتی ہے۔

ہم زیادہ سے زیادہ حکومتی انتظامیہ کو فون کر کے لڑکوں کی مدد کے لیے بلا سکتے تھے لیکن جب حکومت پولیس کی شکل میں خود موجود تھی اور وہ لوگ موجود ہونے کے باوجود تشدد نہیں روک رہے تھے تو ہم کس کو فون کر کے بلاتے؟
بلال خان
اگرچہ ایسا تاثر کلی طور پر درست نہیں ہے لیکن بلال خان کے بارے میں بھی میڈیا میں یہ سوال اٹھائے گئے ہیں۔

میں نے بھی ان سے پوچھا کہ وہ پون گھنٹے تک لڑکوں کے مرنے کے ’تماشے‘ کی فلم بندی کرتے رہے انہیں بچانے کے لیے کوشش کیوں نہیں کی؟ وہ خود سے نہ روکتے لیکن کم از کم فون پر اطلاعات دے کر تو ان کا بچاؤ کرسکتے تھے؟

بلال خان نے جواب دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ حکومتی انتظامیہ کو فون کر کے لڑکوں کی مدد کے لیے بلا سکتے تھے لیکن جب حکومت پولیس کی شکل میں خود موجود تھی اور وہ لوگ موجود ہونے کے باوجود تشدد نہیں روک رہے تھے تو وہ کس کو فون کر کے بلاتے؟

بلال خان کے نزدیک فون کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا تھا اس لیے وہ فلم بندی میں مصروف رہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ انہیں تشدد اور دھکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خود پولیس اہلکار انہیں دھکے دیتے اور بار بار فلم بندی سے روکتے رہے لیکن چونکہ سب کی توجہ کا اصل مرکز لڑکوں پر ہونے والا تشدد تھا اس لیے وہ تمام تر دھکوں کے باوجود ہینڈی کیم (کیمرے) سے بیس سے پچیس منٹ کی فوٹیج بنانے میں کامیاب ہوئے۔

کافی لوگوں نے ہمیں روکا، تشدد کیا، دھکے دیئے لیکن یہ میرا فرض تھا کہ میں اگر موقع پر موجود ہوں تو اس ظلم کی فلم بندی کروں
بلال خان
کیمرہ مین نے کہا کہ ’کافی لوگوں نے ہمیں روکا، تشدد کیا، دھکے دیئے لیکن یہ میرا فرض تھا کہ میں اگر موقع پر موجود ہوں تو اس ظلم کی فلم بندی کروں۔‘

انہوں نے کہا کہ مجھ پر بہت دباؤ ڈالا گیا اور بعد میں جان سے مارنے کی دھمکی دیکر فوٹیج ضائع کرنے کا بھی کہا گیا لیکن بلال خان کے بقول انہوں نے جان پر کھیل کر فوٹیج بنائی تھی اور وہ اسے نشر ہونےسے کیسے روک لیتے۔

’وہاں موجود پولیس والے اپنا فرض پورا نہیں کررہے تھے اگر میں بھی اپنے فرض سے غلفت برتتا تو اس ظلم کو سامنے کس طرح لایا جاسکتا تھا۔‘

بلال خان کے علاوہ دنیا ٹی وی چینل کے کیمرہ مین رپورٹر حافظ عمران بھی وہاں موجود تھے اور بلال خان کے بقول انہوں نے بھی عکس بند کی تھی لیکن بعد میں دونوں نے اپنی اپنی فوٹیج کو ملاکر ایڈیٹ کیا اور اپنے اپنے ٹی وی چینلوں کو جاری کردی۔

گوجرانوالہ ریجن میں ایسی درجنوں ہلاکتیں ہوئیں جن پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگا اور ایسے متعدد واقعات ہوئے جہاں لاشوں کو سرعام بازاروں میں پھرایا گیا اور ان کی نمائش کرتے ہوئے پولیس افسروں نے لاؤڈ سپیکر پرعبرت حاصل کرنے کی نصیحتیں کیںبلال خان نے بتایا کہ جب وہ پہنچے تو ابھی دونوں لڑکے زندہ ہی تھے ان کے بقول چھوٹا لڑکا حافظ منیب تو تین چار منٹ کے اندر ہی مر چکا تھا جبکہ دوسرا پون گھنٹے تک زندہ رہا حتی کہ جب اسے الٹا لٹکایاگیا تو وہ تب بھی زندہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہ سترہ برس کا لڑکاخاموشی سے مار برداشت کرتا رہا لیکن اس کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا۔ بلال خان کے بقول اس نے الٹے لٹکنے کےدوران دم توڑا تھا اور بعد میں جب پولیس کے اعلیٰ افسروں کے آنے کے بعد ان کی لاشیں اتاری گئیں تو تب بھی ان کی بے حرمتی کی گئی اور لاشوں کو سہارا دیئے بغیر رسیاں کاٹ دی گئیں۔

مبصرین کا کہناہے کہ بات یہ نہیں کہ لڑکے ڈکیتی کرنے آئے تھے یا یہ کرکٹ کھیلنے کےدوران جھگڑا ہوا اصل بات یہ ہے گوجرانوالہ ریجن کی پولیس ملزموں کو سرعام سزادینے پر یقین رکھتی ہے۔

گوجرانوالہ ریجن میں ایسی درجنوں ہلاکتیں ہوئیں جن پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگا اور ایسے متعدد واقعات ہوئے جہاں لاشوں کو سرعام بازاروں میں پھرایا گیا اور ان کی نمائش کرتے ہوئے پولیس افسروں نے لاؤڈ سپیکر پرعبرت حاصل کرنے کی نصیحتیں کیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلال خان کی بنائی ویڈیو پر شدید عوامی ردعمل نے حکومت کو کسی حد تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔گوجرانوالہ ریجن میں گزشتہ دو ڈھائی برس کےدوران ہونے والے اس طرح کے درجنوں واقعات میڈیا پر رپورٹ ہوتے رہے لیکن وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومت کے کان پر جوں رینگی۔

اس بحث سے قطع نظر کہ اس ویڈیو کوکس حد تک سنسر کرنے کے بعد جاری کیا جاتا اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ اس فوٹیج کے منظر عام پر آنے کےبعد ہی لڑکوں کو ہلاک کرنے والوں اور ان کی حمایت کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوسکا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلال خان کی بنائی ویڈیو پر شدید عوامی ردعمل نے حکومت کو کسی حد تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

نتیجے میں ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی’ بڑھکوں‘ اور انکوائریاں بٹھانے کے علاوہ عملی اقدام یہ کہ حسب روایت نچلے درجے کے پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیاگیا۔ان سے بڑے درجے کے ضلعی پولیس آفیسر کو معطل کیا اور ریجنل پولیس افسر کو ایک عہدے سے ہٹا کر دوسرا عہدہ دیدیا گیا۔