Tuesday, August 10, 2010

بلوچستان: لاپتہ افراد کے کمیشن کا اجلاس لاپتہ افراد سے متعلق عدالتی کمیشن نے بلوچستان میں لاپتہ بلوچوں سے متعلق تین روزہ اجلاس میں معلومات جمع کی ہی


alt=""id="BLOGGER_PHOTO_ID_5503775723918645026" />
کمیشن کے مطابق گذشتہ چھ ماہ میں اکیاون لاپتہ افراد منظرعام پر آ چکے ہیں جن میں اکتیس کا تعلق بلوچستان سے ہے دوسری جانب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نامی تنظیم نے کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا جب کہ کمیشن کےسامنے پیش ہونے والے لاپتہ افراد کے اکثر لواحقین نے بھی کمیشن کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے

بی بی سی کے مطابق پاکستان میں لاپتہ افراد کے بارے میں سابق جج جسٹس کمال منصور عالم کی سربراہی میں قائم کمیشن نے بلوچستان میں لاپتہ افراد کے بارے میں مزید چونتیس افراد کے لواحقین سے معلومات حاصل کیں۔

جس کے بعد وزارت داخلہ سے تعلق رکھنے والے کمیشن کے ایک رکن شیر بازخان نے بی بی سی کو بتایا کہ کمیشن کے قیام سے لے کر اب تک پورے ملک میں اکیاون افراد منظر عام پر آ چکے ہیں جن میں سے اکیتس کا تعلق بلوچستان سے ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے کمیشن کے سامنے ایک سو دو کیس آئے تھے جن میں سے بیس کیس کوائف مکمل نہ ہونے کے باعث خارج کر دیے گئے جب کہ اکیاون کیسوں پر کارروائی جاری ہے اور چونتیس کیسوں کی سماعت مکمل کر لی گئی ہے اس کے علاوہ دس نئے کیس بھی کمیشن کے سامنے آ چکے ہیںـ

بلوچستان میں لاپتہ افراد کے لواحقین پر مشتمل تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ نے بتا یا کہ جن لوگوں کے کیسز ہم نے کمیشن کودیے تھے کمیشن نے ان میں سے اکثر کے نام سماعت کی فہرست سے نکال دیے ہیں اس کے علاوہ کمیشن کے سامنے ان لاپتہ لوگوں کے کیس بھی رکھے گئے تھے جن کی لاشیں اب ملنا شروع ہوئی ہیں لیکن کمیشن اس سلسلے کو روکنے میں خفیہ اداروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکی۔

گذشتہ سال جون میں خضدار کےعلاقے اورناچ سے لاپتہ ہونے والے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے بھائی پروفیسر محمدصدیق نے بتایا کہ ان کے بھائی کو ایم آئی اور دیگر خفیہ ادارں نے رات دو بجے گھر سے اٹھایا تھاـ ہم کمیشن کے سامنے پیش توہوئے ہیں لیکن لگتا ہے کہ کمیشن بھی میرے بھائی کو منظرعام پرلانےمیں بے بس ہے۔
لاپتہ افراد

کچھ لاپتہ افراد کی تصاویر

اس سال یکم جولائی کو اغوا ہونے والے سابق تحصیل ناظم خضدار شمس بلوچ کے بھائی نے بتا یا کہ ان کے بھائی کو فرنٹیئرر کور نے میاں غنڈی کے مقام پر اس وقت ایمبولینس سے اتار جب وہ اپنی اسی سالہ والدہ کو علاج کے لیے کوئٹہ لا رہے تھے ایف سی نے بعد میں میرے بھی کو خفیہ اداروں کے حوالے کیا جس کے بعد سے اب تک ان کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات نہیں ہیںـ

بلوچ ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے ودود رئیسانی کی بہن نے بتایا کہ وہ گیارہ دنوں سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے علامتی بھوک ہڑتال پر بیھٹی ہیں لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی ان سے بات کرنے تک نہیں آیا ہےحتیٰ کہ اب تو لاپتہ افراد کو مار کے ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پھنک دیا جاتا ہے۔

عدالتی کمیشن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ خود کمیشن کے سامنے پیش ہوئیں لیکن کمیشن کے بعض ارکان نے ان کی مدعا سننے کی بجائے ان کے کپڑوں کی تعریف شروع کی اور کہا آپ بسکٹ کھا لو۔ کمیشن نے کہا کہ آپ کا سوٹ بہت پیارا ہے آپ نے خود بنایا ہے جب کہ میں تو وہاں بسکٹ کھانے نہیں گئی تھی۔

خیال رہے کہ بلوچستان میں زیادہ تر بلوچ قوم پرست رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سابق فوجی صد ر جنرل مشرف کے دور حکومت میں صوبے میں فوجی آپریشن کے دوران آٹھ ہزار سے زیادہ لوگ لاپتہ ہیں لیکن موجودہ حکومت صرف چند سو بتاتی ہے۔
ref BBC