Saturday, September 4, 2010

کوئٹہ دھماکہ:ہلاکتیں چوّن، سوگ اور ہڑتال



بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جمعہ کو القدس ریلی میں ہونے والے دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد چوّن تک پہنچ گئی ہے جبکہ کوئٹہ شہر میں ہلاکتوں کے سوگ میں مکمل ہڑتال کی گئی ہے۔

صوبائی حکومت نے کوئٹہ شہر میں ایک ماہ کے لیے سیاسی اور مذہبی اجتماعات پر پابندی بھی عائد کر دی ہے۔

کلِک یوم القدس کے جلوس میں دھماکہ: تصاویر

دوسری جانب کالعدم جماعت لشکر جھنگوی نے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے

کوئٹہ سے بی بی سی کے نامہ نگار ایوب ترین کے مطابقاہلِ تشیع کی جانب سے نکالی گئی ریلی پر خودکش حملے اور بعد میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد چوّن تک پہنچ گئی ہے۔ ان واقعات میں اسّی سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جو سول ہسپتال، بولان میڈیکل کمپلیکس اور کوئٹہ ملٹری ہسپتال میں داخل ہیں جہاں ڈاکٹروں نے بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی ہے۔
کوئٹہ میں سکیورٹی

کوئٹہ میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں

دھماکے اور فائرنگ سے ہلاکتوں کے خلاف ہڑتال کی اپیل بلوچستان شیعہ کونسل نے کی تھی اور اس موقع پر کوئٹہ میں نظامِ زندگی مکمل طور پر معطل ہے۔ شہر کے تمام تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بند ہیں اور ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔

خبر رساں ادارے ای ایف پی کے مطابق ہلاک شدگان کی نمازِ جنازہ سے قبل کوئٹہ شہر میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ مقامی پولیس افسر ملک محمد اقبال کے مطابق ’اجتماعی نمازہ جنازہ اور تدفین کے موقع پر سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہر میں سکیورٹی فورسز اور انسدادِ دہشتگردی سکواڈ کے ارکان مسلسل گشت کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے واقعہ کے بعد سینیئر سٹی پولیس افسر غلام شبیر شیخ کا فوری تبادلہ کر کے کوئٹہ شہر میں سیاسی اور مذہبی اجتماعات پر ایک ماہ تک کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔

پولیس نے جلوس کے شرکاء کو صادق شہید گراؤنڈ کے قریب روکنے کی کوشش کی مگر جلوس کے منتظمین انتظامیہ کے ساتھ دو دن قبل ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زبردستی جلوس لیکر میزان چوک تک چلے گئے۔

اکبر درانی، سیکرٹری داخلہ

شیعہ فریقے سے تعلق والے اکثر رہنماؤں نے خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلوس کے موقع پر حکومت کی جانب سے امن وامان برقرار رکھنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔ تاہم صوبائی سیکرٹری داخلہ بلوچستان کا کہنا ہے کہ ریلی کے شرکاء پولیس کے روکنے کے باوجود میزان چوک کی جانب گئے تھے۔

اکبر حسین درانی کے مطابق پولیس نے جلوس کے شرکاء کو صادق شہید گراؤنڈ کے قریب روکنے کی کوشش کی مگر جلوس کے منتظمین انتظامیہ کے ساتھ دو دن قبل ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زبردستی جلوس لیکر میزان چوک تک چلے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ نمازِ جمعہ اور یوم القدس کے جلوس کے موقع پر چار ہزار سے زیادہ پولیس اہلکاروں کو مساجد اور امام بارگاہوں پر تعینات کیاگیا تھا۔اس کے علاوہ ضلعی انتظامیہ کو فرنٹیئر کور کے گیارہ پلاٹون کی بھی خدمات حاصل تھیں۔
کوئٹہ دھماکہ

لشکرِ جھنگوی نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے

انہوں نے کہا کہ حکومت نے خود کش حملے اور بعد میں فائرنگ کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے صوبائی وزیر داخلہ میر ظفر زہری کے سربراہی میں کمیشن قائم کر دیا ہے اور جلد ہی ملوث ملزمان کے خلاف قانونی کاروائی ہوگی۔

ہزارہ ڈیموکرٹک پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری عبدالخالق ہزارہ نے کہا ہے کہ ایک سازش کے تحت بلوچستان میں شیعہ سنی مسئلہ پیدا کیا جا رہا ہے اور جو لوگ ان واقعات میں ملوث ہیں ان میں سے چند ایک کے سوا کوئی گرفتار نہیں ہوا ہے۔ خالق ہزارہ نے کہا کہ انتظامیہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے جلوس کے منتظمین کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہونی چاہیئے جس کی وجہ سے اتنے زیادہ لوگ ہلاک و زخمی ہوئے اور پورا کوئٹہ شہر سوگوار ہوگیا ہے۔

خیال رہے کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان میں گزشتہ سات سال میں شیعہ فریقے سے تعلق رکھنے والے پانچ سو سے زیادہ افراد ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں ہلاک جبکہ پندرہ سو کے قریب معذور ہوچکے ہیں۔